ظفرآباد
آپ محمد آباد گہنہ سے ظفرآباد تشریف لائے، اور یہاں مسجد ظفر خاں میں قیام فرمایا، غیاث الدین تغلق کے بیٹے ظفر خاں نے اس علاقے کو ۷۴۱ھ میں فتح کیااور اس کا نام ظفرآباد رکھا، اور ظفرآباد کو اس علاقہ کے صدر مقام بنایا، یہ مسجد ظفر خاں نے بنوائی تھی ، سامانِ سفر اتارا گیا، گھوڑے اور سارے جانور مسجد کے صحن میں باندھ دئے گئے۔
شہر کے لوگ محوِ حیرت تھے کہ یہ عجیب درویش ہے کہ عالم ہونے کے باوجود احترام مسجد کا ذرا بھی خیال نہیں، جانور بھی مسجد میں باندھ رکھے ہیں، چنانچہ کچھ لوگ بسلسلۂ اعتراض حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، ابھی کچھ بولنے کی جرأت بھی انھیں نہیں ہوئی تھی کہ ایک جانور نے حضرت کی طرف اشارہ کیا، آپ نے خادم کو حکم دیا کہ اسے مسجد سے باہر لے جاؤ پیشاب کرے گا، تھوڑی دیر کے بعد ایک گدھا ہنہنایاحکم دیا اسے باہر لے جاؤ لید کرے گا، اس کے بعد آنے والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایاکہ کثافت اور غلاظت کے خوف سے جانور ں کا مسجد میں ماندھنا ممنوع ہے، اور میرے جانور مسجد میں کثافت اور غلاظت نہیں کرسکتے، ویسے آدابِ مسجد کا تقاضہ یہی ہے کہ جانوروںکو مسجد کے اندر نہ باندھا جائے؛ لیکن چونکہ ہم لوگ مسافر ہیں اور ہم لوگ ان کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں کرسکتے، اس لیے بدرجۂ مجبوری ان جانوروں کو صحنِ مسجد میں باندھ رکھا ہے، وہ لوگ آپ کے جواب سے مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔
ظفرآباد آپ نے چند دن قیام فرمایا، دورانِ قیام ایک دن کچھ مسخروں نے آپ کا مذاق اڑاناچاہااور پروگرام بنایا کہ زندہ شخص کا فرضی جنازہ بنایا جائے اور حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر نماز جنازہ پڑھانے کی استدعا کیجائے، جب حضرت نماز جنازہ پڑھانا شروع کریں تو وہ شخص قہقہہ مار کر اٹھ کھڑا ہو تو ان کی ساری درویشی کا بھانڈا پھوٹ جائے گا، چنانچہ یہ لوگ اس فرضی جنازہ کو کاندھے پہ اٹھائے ہوئے روتے بلبلاتے حضرت کی خدمت میں پہونچے، اس وقت حضرت نماز اشراق ادا کرکے بیٹھے تھے، لوگوں نے آپ سے نماز جنازہ پڑھانے کے لیے اصرار کیا، حضر ت نے ہر چند کہا کہ کسی اور سے پڑھوالو، میں مسافر ہوں؛لیکن لوگ بضد ہوگئے، آپ نے فرمایا یہ شخص واقعی مردہ ہے؟سب نے یک زبان ہو کر کہا حضور کہیں زندوں کی بھی نماز جنازہ پڑھائی جاتی ہے؟ حضرت نے اپنے اصحاب میں سے ایک کو حکم دیا کہ ایک شخص مرگیا ہے، یہ لوگ اس کا جنازہ لے کر آئے ہیں ان کی اجازت لے کر نماز پڑھا دو، انھوںنے تین بار اجازت لی اور اس کے نماز جنازہ کی تکبیر کہی، ادھر پہلی تکبیر ہوئی ادھر اس مسخرے کی روح پرواز کرگئی، اس کے سارے ساتھی جو نماز جنازہ میں شریک تھے منتظرہیں کہ اب قہقہہ لگا کر اٹھتا ہے اور اب اٹھتا ہے تاکہ مذاق ہو، لیکن جب انتظار کرتے کرتے نماز جنازہ ختم ہوگئی اور وہ نہیں اٹھا تو لوگ بے چین ہوکراس کے قریب پہونچے اور دیکھا تو وہ واقعی مرچکا تھا اور یہ مذاق حقیقت میں تبدیل ہوگیا۔ سارے مسخرےحیرت وبدحواسی اور رنج وغم کے عالم میں کھڑے کے کھڑے رہ گئے، اور ایک دوسرے کا منھ دیکھنے لگے، حضرت کے اصحاب میں سے ایک نے کہا کہ اب اس لاش کو لیجاؤ اور سپردِ خاک کردو، بجلی کی سرعت کے ساتھ یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی، اور ہر گھر میں آپ کی کرامت کا تذکرہ ہونے لگا، اور ہر دل میں آپ کی زیارت کا اشتیاق پید اہوگیا، اور مسجد کے اندر لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہونے لگا۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972